اس دھرتی کا طول وعرض جس کی حدیں اس قدر پھیلی ہوئی ہیں, کہ اگر ہم چاہیں کے اس کا احاطہ معلوم کر لیں تو ایسا ممکن نہیں, کیونکہ یہ دنیا limitless ہے. جس کا نہ تو کسی کو پہلا دروازہ ملا ہے اور نہ ہی آخری..
لیکن پھر بھی ہم تراشتے جا رہے ہیں نئی راہوں کو, نئے ارادوں کو, ہر کوئی منزل کا متمنی ہے. ہر کوئی چاہتا ہے کہ وہ اس دنیا کو بھرپور جئیے.
ارادے کچھ باندھتا ہے, ہو کچھ اور جاتا ہے. قدم کہیں رکھتا ہے, پہنچ کہیں اور جاتا ہے. ہر آخری خواہش پہلی خواہش بن جاتی ہے. چلتے چلتے پاوں تھک جاتے ہیں, لیکن قدم نہیں رکتے, اور جب رکنے کا وقت آتا ہے, تو قدم پیچھے کی طرف مڑ جاتے ہیں. دنیا میں اکیلے سفر کرتے ہیں, پھر ہمسفر مل جاتا ہے. ان سب راہوں سے ہمارا ایک connection وابستہ ہوتا ہے, جہاں جہاں سے ہم گزرتے ہیں. کہیں ہمارے قدم ڈگمگا جائیں تو سنبھالے والے مل جاتے ہیں اور اگر کوئی اور گر جائے تو ہم اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھا دیتے ہیں.
اس دنیا میں ہر شے توجہ کا مرکز ہے.  ہر ایک شے اپنے مدار میں گھوم رہی ہے. وقت آنے سے پہلے نہ اپنی راہ چھوڑتی ہے اور نہ ہی دوبارہ پلٹے وقت کسی اور شے کو اپنے سامنے حائل ہوا دیکھ سکتی ہے. یہاں بات ہو رہی ہے کہکشاں کی دنیا کی, ایسی دنیا جو ہم سے میلوں دور ہے, لیکن اس کا جڑاو اس دھرتی پر رہنے والوں کے ساتھ اتنا ہی مضبوط ہے. human nature کے مطابق جو شے انسان کی پہنچ سے دور ہوتی ہے, اول یہ کہ انسان اسے پانے کی جستجو رکھتا ہے اور دوسرا اتنی ہی وہ اسے خوبصورت اور پرکشش معلوم ہوتی ہے.
یہی راز زندگی ہے کہ ہم heavenly bodies کو روز تکتے ہیں, ان کی تپش, روشنی کو محسوس کرتے ہیں. وہ روز میلوں کا فاصلہ طے کر کے ہمیں روشنی مہیا کرتی ہیں اور ہم روز اس کی جستجو میں رہتے ہیں.
زندگی سفر در سفر گزر رہی ہے, ہر روز ہمارا واسطہ کئی لوگوں سے پڑتا ہے. ہم لوگوں میں گھیرے ہوئے ہیں, ہم لوگوں سے ہیں, لوگ ہم سے ہیں. چاہے دوست ہو یا دشمن connection  دونوں سے ہے, ویسے ہی جیسے ہمارے دلوں میں کسی کے لیے محبت کا جذبہ بھی ہوتا ہے اور نفرت کی آگ بھی...

ہر انسان سکون اور محبت کا متمنی ہے, جہاں اسے یہ مل جائے اسی کی جانب لپکتا ہے. طویل رستے کو پار کر کے پتہ چلتا ہے, کہ وہ تو گڑ کی ٹرین میں بیٹھا تھا لیکن اس کا ڈبہ تو سے کڑواہٹ کے اسٹیشن پر اتار کر چلا گیا. تب انسان سمجھ پاتا ہے کہ ہر خوبصورت دیکھنے والے آغاز کا انجام ہمیشہ دلکش نہیں ہوتا,
اور ایک ہم یہ غلطی کر بیٹھتیں ہیں.. کہ ہم صرف محبت کو حاصل کرنا چاہتے ہیں. اسے بانٹنے کی طاقت ہم نہیں رکھتے, اور جب بانٹتے نہیں ہیں تو وہی فلسفہ سامنے آجاتا ہے. جو دو گے وہی لو گے. جب دینے کہ مقام کا ظرف ہمارے اندر موجود نہیں ہے, تو لینے کی خواہش ہمارے اندر کیوں کر اجاگر ہو جاتی ہے.. اس میں کوئی شک نہیں کہ تب بھی جڑاؤ موجود ہوتا ہے لیکن مضبوطی تب  آتی ہے, جب ہم خود کو دینے کے مقام پر لا کھڑا کرتے ہیں.
اس دنیا میں جہاں بندے کا بندے کے ساتھ رابطہ ہو رہا ہے. وہیں بندے کا خالق کے ساتھ بھی گہرا رشتہ وابستہ ہے. ایسا رشتہ جس کی کوئی شناخت نہیں, لیکن پہچانا جاتا ہے. مانگنے کا ربط نہ بھی ہو, تب بھی عطا ہی عطا ہوتی ہے. جو دکھتا نہیں ہے لیکن موجود ہے. 
اس موجود کے آگے جب سجدہ ریزی کی جاتی ہے, تب رحمان اور بندے کے درمیان ایک گہرا connection بنتا ہے. ایسا connection کہ رحمان اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہو جاتا ہے. تب بندہ رحمان کو محسوس کرتا ہے. اور جب کبھی وہ سجدہ نہ کر پائے, تب اس ایک پرسکون سجدے کیلئے انسان تڑپ آٹھتا ہے.
زندگی میں ملنا ملانا تو چلتا رہتا ہے.. لیکن جب اس ملنے میں کئی کئی ہفتے لگ جاتے تو اداسیوں کا پٹارا کھلنے لگا. رشتوں میں فاصلے آنے لگے, چاہت ہوتی کہ جا کے اپنے پیاروں سے مل آئیں, لیکن طویل مسافت کے آگے یہ چاہت بھی ڈھیر ہو جاتی. لیکن پھر ایک خرافات دماغ نے ان تمام دوریوں کا حل ٹیلی فون کی شکل میں نکال کر ہمارے لئے مہینوں کے خلا کو سیکنٹو میں بدل دیا. اور یوں ٹیکنالوجی کا بول بالا ہونے لگا اور آج ہم اکیسویں صدی میں روز اپنے پیاروں سے اس ٹیکنالوجی کے ذریعے ملاقات کرتے ہیں.
انسانی دل بڑا معصوم اور گداز سا ہوتا ہے. ہر وقت چاہت اور سکون کی طلب میں ہوتا ہے. جب چاہت مل جاتی ہے تو سکون کا خانہ خالی ہو جاتا ہے.
تو سکون کہاں سے تلاش کریں..
دن کے پانچ سے دس منٹ اگر ہم اپنی مصروف اور افراتفری کی زندگی میں سے نکال کر کسی پرسکون جگہ جا کر بیٹھ جائیں. وہ جگہ کوئی لہلہاتا کھیت ہو سکتا ہے. یا کسی درخت کے نیچے آپ بیٹھ سکتے ہیں, اور وہاں بیٹھ کر اس سبز رنگ کو محسوس کیجئے, جو نظروں کے ساتھ ٹکراتا ہے تو تروتازگی کا باعث بنتا ہے. انسان اپنی اندر کی دنیا کے تمام جھمیلوں سے آزاد اس دنیا سے connect ہو جاتا ہے, جہاں کوئی شور نہیں ہوتا.. بلکہ ان پتوں کی سرسراہٹ جو کہ اس وقت کانوں کو بھلی معلوم  ہوتی ہے کو محسوس کر پاتا ہے.
یا اگر یہ سب موجود نہیں ہے تو چڑھتے سورج کی شعاعوں کو, اور ڈھلتے سورج کہ رنگوں اور اس کی لالی کو, جو اس وقت نیلے آسمان کو سرخی میں بدل دیتا ہے, کو محسوس کر کے دیکھیں. ڈوب جائیں اس لالی میں, کیونکہ ڈوبے بغیر کچھ ہاتھ نہیں آتا. یہ لمحے بڑے پرسکون اور اثر ہوتے ہیں, بس محسوس کرنے کی دیر ہے.
بعض اوقات ہم ایسے لوگوں سے جڑ جاتے ہیں. جن سے ہمارا رابطہ بہت کم وقت کا ہوتا ہے. لیکن بعض اوقات کم وقت میں ہونے والی چیزیں بلا کی پراثر ہوتی ہیں. جن سے ظاہری طور پر تو ہمارا کوئی رابطہ یا واسطہ نہیں رہتا, لیکن دل کا سافٹ ویئر ہمیشہ اس کے لئے ایکٹیویٹ ہی رہتا ہے. اور یوں دل کا ربط ایک خوبصورت احساس کی شکل میں بدل جاتا ہے. احساس جو ہوتا ہی پرخلوص ہے. جس کی چاشنی ہمارے اندر دوڑنے لگتی ہے جب جب ہم اس ربط کو یاد کرتے ہیں جو درو ہو کہ بھی پاس ہوتا ہے.
ہمارے ظاہر اور باطن کا connection کسی نہ کسی تار کے ساتھ ضرور جڑا ہوتا ہے. جیسے یہ دنیا اور اس میں موجود ہر شے وقتی ہے. ویسے ہی ان تاروں کا وجود بھی ان زنگ آلود تاروں کی مانند ہو جاتا ہے جو کئی کئی دیر دھوپ اور بارش میں پڑی بے جان ہو جاتی ہیں. جنہیں کوئی پوچھنے پراتنے والا نہیں ہوتا اور سب کی نظروں کے سامنے تاک سے خاک میں بدل جاتی ہیں.
زندگی اپنا سفر یونہی کاٹتی رہے گی. نئے لوگ اس سفر کے ساتھ وابستہ ہوتے رہیں گے. سفر در سفر میں ربط کا پلڑا کبھی بھاری ہوگا, تو کبھی ہلکا, لیکن ربط رہے گا. کیونکہ ایک چیز جب دل کے آر پار ہو جائے, تو اگر وہ دل کو ویران  بھی کر جائے, تب بھی وہ موجود رہتی ہے. ربط باقی رہتا ہے.