یوں تو اس دنیا میں ہر چیز قابل مرمت ہے, بچپن میں یا تو کبھی بستہ مرمت کے لیے بھیج دیا جاتا, یا جوتے, کبھی یونیفارم میں کہیں چھید پڑ جاتا تو پیوند کے لیے بھیج دیا جاتا, یا کبھی کبھار تو خود ہی ننھے ہاتھوں سے پیوند لگاتے.
تب کبھی پیوند لگاتے ہوئے عجیب محسوس نہیں کرتے تھے, ہاں یہ ضرور جانتے تھے کہ اپنا یونیفارم ہے اور تب یہ بھی معلوم ہوتا تھا کہ اپنے پاس موجود چیز کی قدر کرتے ہیں یوں اس کے خراب ہونے پر اسے پھینک نہیں دیا کرتے بلکہ خود اپنے ہاتھوں سے اسے بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ اس شے کا ہمارے ساتھ جڑاو بہت پرانا تھا.
جہاں پیوند کی بات ہو رہی ہے وہاں ذکر بجا ہے, رحمت العالمین کا, جن کی ذات سے ہماری ذات ہے جنہوں نے ہمیں سکھایا کہ ہاتھ اپنے ہیں اور جو کام ان ہاتھوں سے کرنا ہے وہ بھی اپنا ہے تو پھر جھجک کس بات کی..
خاتم النبین, جن پہ لاکھوں کروڑوں درود و سلام, جن سے نسبت ہماری تو ہم چمنستان, جن کے آنے سے ذرہ ذرہ بھی کہنے لگا, تیری نسبت سے ہے یہ جہاں آباد, نور محمد صلی اللہ علیہ وسلم جن کہ لیے یہ دنیا سجائی گئی, ہر شے انہیں لبیک کہتی, لیکن شفیع المذنبین کی محبت کا بھی کوئی جواب نہیں, اپنی امت کی محبت میں ہر وہ کام کیا جس سے وہ انہیں سنوار سکتے تھے. اپنے دست مبارک سے پھٹے ہوئے کپڑوں کو خود پیوند لگاتے, کبھی ان کاموں کو کرتے ہوئے عار محسوس نہ کرتے اور نہ ہی کبھی پیوند کیا ہوا لباس پہننے میں,
رسول الرحمت, جو کہ ہادی ہیں, ایسی ہدایت دینے والے جس نے زندگی کا ایک پہلو نہیں چھوڑا, ہر ایک پہلو زندگی کو باعمل ثابت کر کے دکھایا, دشمنوں کو دوست کیسے بنانا ہے, اس دشمنی میں محبت کا پیوند کیسے لگانا ہے, تکلیفیں سہیں لیکن سکھا گئے کہ ایسے لگاتے ہیں 'محبت کا پیوند', یتیموں کے سر پر شفقت بھرا ہاتھ یوں رکھتے کہ اس کے اندر کا خلا جو کہ محرومی کا مارا ہوا تھا, وہ یوں پیوند ہو کہ بھر جاتا جیسے کسی بچھڑے ہوئے کو اپنا مل جائے.
صفی اللہ کو کب یہ گوارا تھا کہ کوئی ان کے در پر سوالی بن کر آتا اور وہ عنایت نہ کرتے, اگر گھر میں روٹی ایک ہوتی اور اوپر سے ساحل آجاتا تو کیا بات ہے رب کے محبوب کی کہ اپنا ہاتھ اس روٹی سے کھینچ لیتے اور جا کر اس سوال کرنے والے کے سوال پر جوابی پیوند وہ روٹی دے کر یوں لگاتے کہ اس کا انگ انگ وہ روٹی دیکھ کر خوشی سے بحال ہو جاتا.
ہم انسان بڑے محبت کرنے والے لوگ ہیں, احمد بن عبداللہ ہمیں سکھا گئے کہ کیسے رشتوں میں صلح رحمی کرنی ہے. کیسے تکلیفیں برداشت کر کے دوسرے کے چہرے پر مسکراہٹ لانی ہے. ہم اکثر جب دوستوں میں بیٹھے ہوتے ہیں تو اس وقت کسی نہ کسی کو کوئی پریشانی لاحق ہوتی ہے, تب وہ دوست ہی ہوتا ہے جو چہرہ پڑھے, بن پوچھے اس کا حال جان لیتا ہے اور کچھ ایسا کرتا ہے کہ میرے یار کے چہرے پر سے پریشانی کے بادل ہٹیں اور اس کا کھلتا چہرہ اسے دیکھنے کو ملے, یہ جڑاؤ ہے, یہ وہ بندھن ہے جو اپنے یار سے اپنی پریشانی بیان کرنا اور بیان کرتے ہی اس پریشانی کا آدھا حصہ کم ہو جانا, کیونکہ اس وقت صرف اسی کا بیان کرنا نہیں تھا بلکہ سننے والے کا یوں سننا اور ساتھ ہی اس کی ڈھارس بندھانا تب اصل میں مسئلے کے حل کا پیوند لگ رہا ہوتا ہے.
ہمیں خود بھی احتیاط کرنی چاہیے کہ ہمارے آس پاس کہیں کوئی ایسا تو نہیں جسے ہماری ضرورت ہو, کیونکہ بہترین انسان وہی ہے جو ضرورت کے وقت کام آتا ہے. اپنے آپ کو آسانیاں بانٹنے والا بنائیے. کیونکہ اس دنیا میں ہر دوسرے انسان کو کوئی نہ کوئی غمگسار, علم شناس, شفقت آمیز, ملنسار, رہنما چاہیے ہوتا ہے.
مالک الملک رحمان, جس کے لیے تمام جبینیں جھکی ہوئی ہیں, ہر سجدہ, ہر قدم اس کی جانب جھکتا اور لپکتا ہے. رحمان فرماتا ہے اے اشرف المخلوق میں نے تجھے اس دنیا میں نائب بنا کر بھیجا ہے اور تم میں بہترین وہ ہے جو میرے بندوں کے ساتھ بہتر ہے, جو اپنے بھائی کو بھائی سمجھتا ہوں بلکہ اس کا گلا کاٹنے کے در پر نہ ہو, رحمان نے اپنے کونین کے ذریعے ہمیں سکھایا کہ اس کے بندوں کے ساتھ حسن سلوک کرو. ہمارے آنے کا اصل ہی یہی ہے کہ رحمان کے بندوں کے دلوں, روحوں, جذبات, احساسات کو پیوند لگایا جائے اور ہم روز کہیں نہ کہیں یہ سب کر رہے ہوتے ہیں.
جہاں ہم باہر کی دنیا کو پیوند لگانے میں کوشاں ہیں, وہیں اپنے اندر کو پیوند لگانا بھی بہت ضروری ہے. ویسے تو انسان اس دنیا میں سب سے زیادہ محبت خود سے کرتا ہے لیکن کبھی کبھار انجانے میں انسان خود کو ہی بہت تکلیف پہنچا دیتا ہے اور اس وقت اس کے پاس کوئی ڈھارس بندھانے والا نہیں ہوتا, تب اسے خود کو ہی اپنی تکلیفوں کو پیوند لگانا پڑتا ہے, بعض لوگ تو ایسا کر جاتے ہیں, مگر اکثریت بہت دیر لگا دیتی ہے.
ہم انسانوں کا ایک دوسرے سے تعلق, رشتے کا ہوتا ہے, جتنا زیادہ رشتہ قریبی ہوتا ہے اپنائیت اتنی زیادہ ہوتی ہے, جڑاؤ اتنا مضبوط ہوتا ہے.
لیکن ہمارے ہاں ہر چیز بٹ چکی ہے, خواہ وہ رشتے ہوں یا ذاتیں.
ہر ایک کو ایک مخصوص معیار پر اترنا پڑتا ہے تب جا کر اسے وہ مقام ملتا ہے جس کا وہ خواہش مند ہوتا ہے. ہر ایک کو اس کی ذات کی بنا پر تولا جاتا ہے, جتنی ذات کا پلڑا بھاری ہوا, اس قدر اس کی خاطر مدارت اور چاپلوسی کی جائے گی اور جو کمتر ذات کا ہوا, بجائے یہ کہ اس کے ساتھ بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے اعلی ظرفی کا پیوند لگایا جائے, اس کے ساتھ وہ سلوک کیا جاتا ہے جس کا شاید اسے خود کبھی احساس نہیں ہوا کیونکہ انہوں نے جس دروازے کو کھولا سامنے تذلیل ہی پائی.
ہم نے رحمان سے ڈرنا چھوڑ دیا ہے, اس کے محبوب کے احکامات پر چلنا چھوڑ دیا ہے ورنہ سرور کونین تو فرما گئے تھے, کسی عربی کو کسی عجمی پر, کسی عجمی کو کسی عربی پر, کسی گورے کو کسی کالے پر, کسی کالے کو کسی گورے پر کوئی برتری نہیں سوائے پرہیزگاری کے, ہم یہ سب بھول گئے ہیں تبھی تو طبقات کے گرد طواف کر رہے ہیں. تب ہمیں کیسے پیوند لگانا آئے گا, جب امیر کبیر باپ کی بیٹی کی شادی ہو رہی ہو اور اچانک وہاں سے ایک غریب شخص نمودار ہو, جو بھی کسی بیٹی کا باپ ہو, ایک مجبور بےکس باپ جو اس وقت ایک امیر شخص کے در پہ ہاتھ پھیلانے آیا تھا, بھائی صاحب میری بیٹی کی برات دروازے پر کھڑی ہے آپ کچھ عنایت کر دیں تو اس کی ڈولی اٹھے گی.
لیکن ہم میں تکبر بھی تو بہت ہے, اپنی طاقت کا رعب بھی تو کسی پر ڈالنا ہوتا ہے اور یہ تو طے ہے کہ اونچا طبقہ ہمیشہ نچلے طبقے کو اپنے پیروں تلے روند دیتا ہے, ایک تو وہ کبھی اٹھیں نہیں, اور دوسرا وہ ہمیشہ ان کی غلامی میں رہیں.
تو پھر ڈولی کیسے اٹھتی... جب ایک امیر کبیر شخص کی خود کی بیٹی کی شادی ہو رہی تھی وہ تو اس کی محبت میں اس کا صدقہ سمجھ کر ہی اس غریب بیٹی کو چند پیسے دے کر اس کی ڈولی کا پیوند لگا دیتا, لیکن اس معاشرے میں ایسا رواج کہاں..
ان کی نظر میں رواج اسے کہتے ہیں کے بیٹی کی شادی پر لاکھوں لٹا دیئے جائیں, ان کے گھروں میں روشنائیاں ہوں, بینڈ باجے بجیں, ہزاروں بندوں کیلئے صدہا قسم کہ رنگ برنگے کھانے پیش ہوں.
لیکن چند پیسوں کی امداد انہیں قبول نہیں, کہ وہ بیٹی اپنی آخری سانسں تک اپنے پیا کے انتظار میں بیٹھی ایک شاخ سے سوکھی ٹہنی بن گئی.
رحمان ہمیں توفیق دے کہ اس مختصر سی زندگی میں بہترین اعمال کر سکیں اور وہ ہمیں اتنی طاقت دے کے اس کہ بندوں کو جہاں ہماری ضرورت پڑے ہم ان کی زندگی میں پیوند لگا کر ان کی مشکلوں کو آسان کر سکیں.
بیشک رب جس کو چاہے عزت دے اور جس کو چاہے ذلت دے.